ماں کی دعا
سلیمان اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ان کی گزر بسر کا ذریعہ ایک چھوٹا سازمین کا ٹکڑا تھا،جہاں وہ فصل اور سبزیاں اُگاتے اور انھیں بیچ کر دن گزارتے تھے
جدون ادیب
سلیمان اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ان کی گزر بسر کا ذریعہ ایک چھوٹا سازمین کا ٹکڑا تھا،جہاں وہ فصل اور سبزیاں اُگاتے اور انھیں بیچ کر دن گزارتے تھے۔کچھ آمدنی مرغیوں کے انڈوں اور بکریوں سے حاصل ہو جاتی تھی ۔
انھی دنوں دونوجوان طالب علم ان کے گاؤں پہنچے۔وہ قریبی جنگل میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرنے آئے تھے۔سلیمان نے ان کو مہمان بنا کر اپنے گھر ٹھیرایا اور پندرہ دن تک ان کے ساتھ جنگل جاتا رہا۔
وہ اپنا کام کرتے رہتے اور سلیمان ان کے لیے کھانا اور چائے وغیرہ تیار کرتا۔
کی۔
کچھ عرصے بعد ایک دن سلیمان کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ شہر جا کر ان مہربان طالب علموں سے ملے جو ایک بڑے طبیب کے شاگر د تھے ۔
جن کی شہرمیں بڑی اچھی قیمت مل جاتی ہے ۔انھوں نے سلیمان کو بنفشی رنگ کا ایک سوکھا ہوا پھول اور جنگل میں موجود اس کے پودے دکھائے تھے،جن پر بھی پھول نہیں آئے تھے ۔
دوسرے دن سلیمان جنگل میں پہنچ گیا۔بہار کا موسم تھا۔ایک ہموار جگہ پر وہ پھول ہزاروں کی تعداد میں کھلے ہوئے تھے ۔سلیمان نے وہ پھول چننا شروع کردیے اور شام ہونے تک اس نے ایک بوری بھرلی اور گھر لوٹ آیا۔
شہر پہنچ کر اسے بڑے طبیب کا شفاخانہ تلا ش کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔دونوں شاگرد بھی وہیں مل گئے اور انھوں نے سلیمان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیاا ور اس کی خوب خاطر کی ۔
سلیمان کو اتنی بڑی رقم مل گئی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ پھول بہت قیمتی تھے اور سال میں چند ہفتوں کے لیے کھلتے تھے ۔اگلی صبح سلیمان تیزی سے اپنے گاؤں روانہ ہو گیا۔رات کو وہ گھر پہنچا اور اگلی صبح جنگل پہنچ گیا۔
اس طرح محنت کرتے کرتے دو ہفتے گزر گئے اور پھول ختم ہو گئے۔اس دوران سلیمان نے بارہ بوریاں بھر لی تھیں ۔
سلیمان نے چند لمحے سوچا اور پھر اقرر میں سر ہلا کر بولا:”آپ درست کہتے ہیں ۔یہ آپ کا حق بنتا ہے ۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں ،مگر آدھی رقم آپ آپس میں کس طرح تقسیم کریں گے؟“
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا ،پھر دوسرا جس کا نام فہد تھا،بولا:”وہ ہم آپس میں آدھی آدھی بانٹ لیں گے۔
سلیمان نے ایک لمحے سوچا اور پھر بولا:”ایساکرتے ہیں ،ہم رقم کے تینوں برابر کے حصے دار بن جاتے ہیں ۔یہ زیادہ مناسب بات ہو گی۔“
وہ دونوں پھر چونکے اور مشورہ کرنے کے لیے ذرا فاصلے پر چلے گئے ۔تھوڑی دیر بعد وہ آئے تو حسن بولا:”سلیمان! استاد محترم چاہتے ہیں کہ تم ان کے شفا خانے میں ایک دکان لے لو،جہاں یہ پھول سارا سال بیچو ۔
سلیمان نے ایک لمحے کے لیے سوچے بغیر کہا:”میں اپنی ماں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا،مجھے چاہے کم پیسے ملیں ،مگر میں یہیں رہوں گا۔یہ پھول اور دوسری جڑی بوٹیاں جو آپ مجھے کہیں گے ،جمع کرکے میں آپ کو دوں گا۔
فہد نے اُٹھ کر سلیمان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا:”سلیمان ! تم ایک سچے انسان ہو ۔ہمیں تمھاری محنت میں سے کوئی حصہ نہیں چاہیے۔ہم تمھیں آزمار ہے تھے۔
سلیمان کی ماں اسی دن کا انتظار کررہی تھی۔
سلیمان کی شادی میں دونوں طالب علم نے شرکت کی اور سلیمان کو قیمتی تحفے دیے۔سلیمان نے رفتہ رفتہ ترقی کی اور بہت بڑا تاجر بن گیا۔اس کے پاس درجنوں ملازم کا م کرنے لگے،مگر اپنی ماں کی خدمت اب بھی خود کرتا تھا،کیوں کہ اسے یہ سب ماں کی خدمت کے بدلے ملا تھا۔
No comments:
Post a Comment