وفا
دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔
کامران امجد خان
دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔دُور دُور تک کھلا میدان تھا اچانک خلیفہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو افتان و خیزان ننگے پاؤں قیامت کی اس گرمی میں محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔دُور دُور تک کھلا میدان تھا اچانک خلیفہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو افتان و خیزان ننگے پاؤں قیامت کی اس گرمی میں محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
خلیفہ نے کہا”واللہ ا گر یہ شخص میرے پاس کوئی حاجت لے کر آیا ہے تو میں اس کی حاجت پوری کرونگا۔
“پھر ایک خادم کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ دروازے پر کھڑا رہے اور اگر یہ شخص مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے میرے پاس آنے سے نہ روکا جائے۔
”کونسی حاجت تمہیں یہاں لائی؟“
”جناب میں شکایت لے کر آیا ہوں مجھ پر ظلم ہوا ہے ‘میں انصاف کا طلب گار ہوں۔“
”اعرابی ! کس نے تم پر ظلم ڈھایا ہے ؟“خلیفہ نے پھر پوچھا ۔
خلیفہ نے کہا”اعرابی مجھے اپنا پورا قصہ سناؤ۔“
اعرابی بولا!”جناب میری ایک بیوی تھی میں اس کا عاشق زارتھا ۔ہمارے پاس اونٹوں کا ایک قافلہ تھا جس سے ہم با آسانی گزر بسر کر لیتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا ۔
مروان نے مجھے طلب کیا اور سعاد کو طلاق دینے کا حکم دیا۔میں نے انکار کیا تو اُس نے مجھ پر تشدد کا حکم دیدیا۔جب تشدد حد سے بڑھا تو میں مجبور ہو گیا اور میرے پاس سوائے طلاق دینے کے کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ میں نے طلاق دیدی اور عدت گزرنے کے بعد مروان نے سعاد سے شادی رچالی۔
یہاں تک کہنے کے بعد اعرابی رونے لگا۔پھر بے حال ہو کر لڑکھڑایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
غصہ خلیفہ کے چہرے پر ٹپکنے لگا اور کہنے لگا ”مروان نے اللہ کی حدود میں دست اندازی کی ہے اور ایک مسلمان کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔
پھر قلم اور کاغذ منگوایا اور مروان بن حکم کے نام لکھا:
”مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسلام کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا ہے اور اپنی رعیت کے ایک شخص پر ظلم ڈھایا ہے ۔اب تمہارے جیسے شخص کو حرص و ہوس سے باز رکھنا لازمی ہو گیا ہے ۔
مروان کو جب یہ حکم ملاتو تعمیل حکم کے بغیر اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ اس نے فوراً سعاد کو طلاق دیدی اور نصر بن ذبیان کے ہمراہ اسے دمشق روانہ کر دیا ۔ساتھ ہی شعروں کی زبانی ایک خط ارسال کیا جس میں لکھا تھا۔
”اے امیرالمومنین میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے۔میں اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوں اور معذرت خواہ ہوں مگر آپ جب اسے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انسان کی تمام آرزوئیں ایک جسم میں مجسم ہیں ۔آپ کے پاس سورج کی مانند ایک حسین صورت آرہی ہے ایسی صورت کسی انسان نے کبھی دیکھی ہوگی نہ کسی جن نے۔
خلیفہ نے خط پڑھاتو مسکرائے اور حکم دیا کہ سعاد کو حاضر کیا جائے۔
سعاد دربار میں حاضر ہوئی۔جب خلیفہ کی نظر اس پر پڑی تو واقعی خلیفہ نے محسوس کیا کہ وہ حُسن و جمال میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔پھر جب خلیفہ نے اس سے بات کی تو مزید حیران ہوئے۔
فصاحت‘بلاغت اور ذہانت میں بھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔پھر انہوں نے میاں بیوی کے باہمی خلوص کو پر کھنا چاہا‘اور اعرابی کو مخاطب کرکے کہا”تجھے اس کے بغیر کیوں سکون نہیں آتا میں اس کے عوض تجھے چاند جیسی حسین وجمیل تین کنیزیں عطا کروں گا اور ہر کنیز کے ساتھ ایک ایک ہزار دینار کا عطیہ بھی ملے گا اور پھر تجھے بیت المال سے اتنا کچھ عطا کروں گا کہ تیرے لئے کافی ہو جائے گا۔
اعرابی نے جب یہ سناتو چیخا”مروان بن حکم کے ظلم کے خلاف میں نے آپ سے انصاف مانگا تھا․․․․اب میں آپ کے ظلم کے خلاف انصاف کس سے مانگوں؟“
خلیفہ مسکرائے اور بولے”تجھے اقرار ہے کہ تُو نے سعاد کو طلاق دیدی تھی۔
پھر سعاد کی طرف دیکھ کر اسے کہنے لگے۔
”سعاد!اب تم بولو تم کسے اختیار کر نا چاہتی ہو اور تمہیں کون زیادہ پسند ہے ۔
سعاد نے شعروں کی زبان میں فوراً جواب دیا۔
”اگر چہ یہ شخص مفلس اور بدحال ہے مگر میرے نزدیک اپنی ساری قوم اور سارے عزیزوں سے زیادہ باعزت ہے ۔اور یہ مجھے عزیز تر ہے۔“پھر کہنے لگی:”اے امیرالمومنین!زمانے کے حوادثات اور وقت کی تبدیلی سے میں شکست خوردہ نہیں ہوں گی۔
خلیفہ نے جب سعاد کی یہ وفا اور خلوص دیکھا تو مسرت سے جھوم اُٹھے اور بولے”سعاد میں نے صرف تمہارے خلوص اور وفا کا امتحان لینے کے لئے یہ باتیں کہیں تھیں ۔
No comments:
Post a Comment