ذہین بادشاہ
بہت مدت پہلے دور دراز کے ایک ملک میں یہ قاعدہ تھا کہ اس ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔جو بھی بادشاہ بنتا وہ ایک عہدے نامے پر دستخط کرتا کہ اس کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ
بہت مدت پہلے دور دراز کے ایک ملک میں یہ قاعدہ تھا کہ اس ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔جو بھی بادشاہ بنتا وہ ایک عہدے نامے پر دستخط کرتا کہ اس کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ اس عہدے سے دست بردار ہو جائے گا اور اس ایک دور دراز جزیرے پر چھوڑ دیا جائے گا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکے گا۔
جب ایک بادشاہ کا ایک سالہ دور حکومت مکمل ہو جاتا تو اسے ایک مخصوص جزیرے پر چھوڑ دیا جاتا جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتا۔ ا س موقع پر اس بادشاہ کو بہترین لباس پہنایا جاتا اور ہاتھی پر بٹھا کر اسے پورے ملک کا الوداعی سفر کر وایا جاتا جہاں وہ سب لوگوں کو آخری بر خیر باد کہتا۔
ایک مرتبہ لوگ اپنے پُرانے بادشاہ کو جزیرے پر چھوڑ کر واپس آرہے تھے کہ انھوں نے ایک ایسا سمندری جہاز دیکھا جو کچھ دیر پہلے ہی تباہ ہوا تھا اور ایک نوجوان شخص نے خود کو بچانے کے لئے لکڑی کے ایک تختے کا سہارا لے رکھا تھا۔
بادشاہت کے تیسرے دن ہی اس نوجوان بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا: ”مجھے وہ جگہ دکھائی جائے جہاں گزشتہ تمام بادشاہون کو بھیجا گیا تھا۔
نے بادشاہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے وہ جزیرہ دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ وہ جزیرہ مکمل طور پر جنگل تھا اور جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ ان جانوروں کی آوازیں جزیرے کے باہر تک سنائی دے رہی تھیں۔ بادشاہ جائزہ لینے کے لئے تھوڑا سا جنگل کے اندر گیا اور وہاں اس کے پچھلے تمام بادشاہوں کے ڈھانچے پڑھے نظر آئے۔
ملک واپس پہنچ کر بادشاہ نے مضبوطو توانا جسم کے سو مزدور اکھٹے کیے۔ ان سب کو اس جزیرے پر لے گیا اور حکم دیا جنگل کو ایک ماہ میں مکمل طور پر صاف کر دیا جائے۔
وہ ہر ماہ خود جزیرے کا دورہ کرتا اور کام کی خود نگرانی بھی کرتا۔ پہلے مہینے میں ہی تمام خطر ناک جانوروں کو مار دیا گیا اور پھر بہت سے درخت بھی کاٹ دیے گئے ۔
اب بادشاہ نے مزدوروں کو حکم دیا کہ جزیرے پر مختلف مقامات پر خوب صورت باغات تعمیر کیے جائیں۔ وہ اپنے ساتھ مختلف پالتو جانور مثلاََ مرغیاں۔ گائے۔ بھینسیں ،بطخیں اور بھڑیں وغیرہ بھی جزیرے میں منتقل کرتا رہا۔
تیسرے مہینے میں بادشاہ نے ا پنے مزدوروں کو حکم دیا کہ ایک شاندار گھر تعمیر کریں اور اس جزیرے پر ایک بڑی سی بندرگاہ بھی بنائیں ۔ گزرتے مہینوں کے ساتھ ساتھ وہ جزیرہ ایک خوب صورت شہر میں بدلتا جا رہا تھا۔
وہ نوجوان بادشاہ بہت سادہ لباس زیب تن کرتا اور اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتا۔
بالآخر دو ماہ مکمل ہو گئے اور بادشاہت کا ایک سال ختم ہوگا۔
اس نوجوان بادشاہ نے جواب دیا۔” تم لوگوں نے داناوٴں کا وہ قول نہیں سنا:” جب تم ایک چھوٹے بچے کی صورت میں اس دنیا میں آتے ہو تو تم رو رہے ہوتے ہو اور باقی لوگ سب ہنس رہے ہوتے ہیں۔
جس وقت تمام بادشاہ محل کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہوتے تھے تو میں اس وقت اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا تھا اور اس کے لئے لائحہ عمل تیار کرتا تھا۔ میں نے اب اس جزیرے کو ایک ایسی خوب صورت قیام گاہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب میں اپنی باقی زندگی نہایت چین اور آرام وسکون سے گزار سکوں۔“
No comments:
Post a Comment